Thursday, August 10, 2017

مویشی منڈی سج گئی، شوقینوں کی آمد شروع

ایشیاء کی سب سے بڑی مویشی منڈی کراچی کے سپر ہائی وے پر سجنا شروع ہوگئی ہے، آج شہری خریداری کیلئے تو زیادہ نہیں پہنچے لیکن چھٹی کے دن جانوروں کو دیکھنے کیلئے ضرور پہنچ گئے

کراچی کی مویشی منڈی میں عینک والے جن کے کردار 3 فٹ کا زکوٹا اور قد چھوٹا مگر پھرتی اعلیٰ، ایسا غائب ہو کہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے، 6 فٹ کا ہامون بھی خوب رعب جھاڑتا ہے۔

ایشیاء کی سب بڑی مویشی منڈی کے انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں، سنت ابراہیمی ادا کرنے کیلئے جانوروں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، بچے جانوروں کو اپنے درمیان دیکھ کر بے حد خوش ہیں،

کراچی : بقر عید قریب ہے مگر ایشیاء کی سب سے بڑی منڈی میں جیتنے جانور ہیں اتنے خریدار دکھائی نہیں دیتے، کراچی کی سپر ہائی وے منڈی لگے مہینہ ہونے کو ہے، پونے 2 سے 2 لاکھ گائے اور بچھڑے منڈی میں آچکے ہیں مگر اب تک صرف 25 ہزار کے سودے ہوئے، 50…

کراچی : کراچی کی مويشی منڈی جانے والے ہوشيار ہوجائیں، منڈی انتظامیہ نے دھوکے بازوں کیخلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے درجن بھر نقلی دانتوں والے جانور پکڑ کر 3 بیوپاریوں کو حراست میں لے لیا۔ خبردار! ہوشیار، ہٹا کٹا جانور لینے والوں کہیں نقلی دانتوں والا جانور نہ لے آنا، منڈی میں فراڈ عروج پر…

کراچی : کراچی ميں قربانی کیلئے لائے جانے والے وی آئی پی جانوروں کے ششکے بھی وی آئی پی ہیں، مويشی منڈی ميں نخرالے جانوروں کو ديکھنے والوں کا رش لگ گيا، ایسے جانوروں کی قيمتيں آسمان پر ہیں، بيوپاری دعویٰ کرتے ہيں کہ رواں سال قيمتيں کم نہيں ہونگی۔ جانور لگے سب سے اچھا…

گھر اور اسکول میں سبزیاں اگائی

کچن گارڈن کیا ہے؟
کچن گارڈن سے مراد گھر میں سبزیاں اگانا ہے۔ کچن گارڈن آپ اپنے گھر کے کسی بھی حصے میں اگا سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی فلیٹ میں رہتے ہیں تب بھی آپ یہ کام خوش اسلوبی کر سکتے ہیں اور اسکے لئے آپ اپنی کھڑکیون یا بالکونی کو استعمال کرکے ورٹیکل گارڈن سے اپنے گھر کی سبزی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ کچن گارڈن کیلئے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں، انہیں آپ کیاریوں میں اگاسکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں تھوڑی سی کچی زمین ہے تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے ورنہ آپ کیاریوں سے بھی اچھا منافع کما سکتے ہیں۔ اسکیلئے آپ کوئی سے پرانے برتنوں جیسے پرانی بالٹی، ٹوٹا ہوا مٹکا، پرانے ٹائر، ٹیوب یا پائیپ کے ٹکڑے یا کوئی بھی ایسا برتن جس میں تھوڑی سی مٹی اور پانی جمع کیا جاسکے استعمال کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ لکڑی کے تختوں سے بنے پھلوں کے کارٹن یا موٹے کپڑے سے بنے تھیلے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ پانی یا کوکنگ آئل وغیرہ کے کین یا کولڈ ڈرنک کی دو لیٹر یا اس سے بڑی بوتلیں کچن گارڈن کیلئےبڑی افادیت رکھتی ہیں۔ ان بوتلوں سے ورٹیکل گارڈن جو شہری گھروں کیلئے بہت کارآمد ہیں،  بڑی عمدگی سے بنائے جاسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ آپ اپنے گھر یا فلیٹ کے فرش کو بھی برؤئیکار لاسکتے ہیں، اسکے لئے فرش پر موٹے پولی تھین کی دہری تہہ لگانی چاہئے تاکہ سیپیج سے فرش خراب نہ ہو۔

کچن گارڈن میں کیا اگایا جاسکتا ہے؟
کچن گارڈن میں آپ ٹماٹر، مرچ، کھیرا، بینگن، بھینڈی، کریلہ،توری، پیاز، پالک، دھنیا اور لہسن کے علاوہ اور بہت سی سبزیاںاگاسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آلو اور شلجم یا گاجر تک اگائےجاسکتے ہیں۔ آجکل ایسے بیج بازار میں دستیاب ہیں جو زیادہاور جلدی پھل دیتے ہیں اور بیماریوں سے بھی کم متاثر ہوتےہیں۔ بیج کے علاوہ کسی اچھی نرسری سے ان سبزیوں کے پودےبھی لئے جاسکتے ہیں جو جلد پھل دیتے ہوں۔ سبزیوں کو اگانےاور ان کی دیکھ بھال کے طریقے آن لائن دیکھے جاسکتے ہین اورکئی سرکاری ادارے اور غیرسرکاری تنظیمیں اس کام میں آپ کیمعاونت کرسکتی ہیں۔

 !اسکول میں کچن گارڈن یا بیک یارڈ گارڈن کو فروغ دیجئے
اسکول میں بچوں کو سبزیون کے پودے لگانے کیلئے تعلیم اور ترغیب دیجئے اور اسکول کے آگے پیچھے زمین اور کیاریوں میں ان سے پودے لگوائیں اسطرح کچن گارڈن کو  بہت آسانی سے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اسطرح بچوں میں سبزیوں اور پھلوں سے رغبت بڑھے گی اور اور اپنے والدین اور رشتہ داروں میں اس شوق کو پروان چڑھانے میں مددگار بنیں گے اور کچن یا بیک یارڈ گارڈن ترقی یافتہ ملکوں کیطرح تقریباً ہر گھر کا حصہ بن جائے گا۔ اور اسطرح غریب گھرانوں کی سبزی ترکاری کی ضروریات کم خرچ میں پوری ہوسکیں اور ان میں غزائی کمی پہ بھی قابو پایا جاسکے۔    

Tuesday, August 8, 2017

منڈی مویشیاں صادق آباد

منڈی مویشیاں صادق آباد
صادق آباد کی بکرا منڈی پاکستان کی بڑی منڈیوں میں شمار کی جاتی ہے ہزاروں کی تعداد میں بکرے بھیڑ وچھڑے وہڑے چھترے وغیرا اس منڈی میں فروخت ہونے کے لیے آتے ہیں
یہ منڈی رحیم یار خان سے تقریبا 30 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے
ملک بھر سے بیوپاری حضرات خریداری کے لیے اس منڈی میں آتے ہیں اور مہنگے داموں پر جانوروں کو اپنے شہروں میں لے جا کر فروخت کرتے ہیں

منڈی مویشیاں سیخ عوان

منڈی مویشیاں شیخ عوان
یہ منڈ پنجاب کی بڑی منڈیوں میں شمار ہوتی ہے اور اس میں بے شمار جانور آتا ہے یہ منڈی اتوار کے دن لگتی ہے.
اس منڈی میں بیوپاری حضرات بہت زیادہ آتے ہیں خاص تور پر کراچی حیدرآباد نواب شاہ ملتان لاہور مردان شکارپور ساہیوال گجرات چکوال بھاولپور منڈی بہاودین نوشہرا اور پاکستان کے دیگر بڑے شہروں سے تشریف لاتے ہیں
یہ منڈی رحیمیارخان سے تقریبا 35 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے.

فیصل آباد میں جانوروں کا مقابلہ صحت

ایک پرانی اور دیرینہ روایت پر ہر عید قربان سے قبل قربانی کے جانوروں جن میں بکرے، بیل، گائے، بھینس اور اونٹ شامل ہوتے ہیں ان کا مقابلہ حسن و صحت کرایا جاتا ہے اور اس مقابلہ میں بکروں کے حوالہ سے ایسے ایسے بکرے بھی شریک ہوتے ہیں جن کی خوراک میں سپرائٹ، کولا اور سیون اپ کی بوتلیں بھی شامل ہوتی ہیں یعنی وہ خوراک کھانے کے بعد سپرائٹ، سیون اپ یا پھرپانی کی جگہ منرل واٹر پیتے ہیں۔ فیصل آباد میں یہ مقابلہ حسن جانور نجی سطح پر انعقاد پذیر ہوتا ہے جبکہ سالانہ میلہ منڈی مویشیاں کے موقع پر جانوروں کی جو نمائش ہوتی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ دودھ دینے والی اعلیٰ نسل کی گائے اور بھینس کی نمائش کی جاتی ہے جن میں نیلی بار کی بھینس اور غیرملکی اقسام کی گائیں شامل ہوتی ہیں گو اس نمائش میں بیل وغیرہ نمائش کے لئے پیش کئے جاتے ہیں جن سے نسل کشی کا عمل کرایا جاتا ہے لیکن ان مقابلوں میں جو جانور نمائش کے لئے پیش ہوتے ہیں وہ میلہ منڈی مویشیاں جن جن علاقوں میں ہوتے ہیں ان علاقوں کے میلوں میں شرکت کرتے ہیں اور برسوں وہی جانور مقابلے جیتے چلے آتے ہیں جو ایک بار جیت چکے ہوتے ہیں گویا اس شعبہ میں ان جانوروں کے مالکان کی اجارہ داری ہوتی ہے جیسے کوئی پہلوان ایک مرتبہ رستم کا اعزاز حاصل کرتا ہے تو یہ اعزاز اس کی زندگی کا جزو بن جاتا ہے۔ ہر سال عید قربان سے قبل بکروں، بیلوں، بچھڑوں وغیرہ کا جو مقابلہ حسن کرایا جاتا ہے اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس مقابلہ میں حصہ لینے والے جانوروں کی عید قربان کے موقع پر قربانی پیش کی جاتی ہے اورمالکان جانور عید قربان کے بعد آئندہ سال کے لئے اپنے جانوروں کی پرورش شروع کر دیتے ہیں گو پنجاب میں اونٹ کی قربانی بھی بڑے اہتمام سے کی جاتی ہے لیکن سندھ کے علاقوں میں جو اونٹ قربانی کے لئے منڈی میں برائے فروخت لائے جاتے ہیں ان اونٹوں کو خوبصورت بنانے کے لئے ان کی کھال پر ٹرکوں کی طرح بڑے ہی فنکارانہ انداز میں نقش و نگار بنائے جاتے ہیں اور جو کاریگر جنہیں آپ آرٹسٹ بھی کہہ سکتے ہیں وہ نسلوں سے یہی کام کرتے آ رہے ہیں اور برش کی بجائے صرف قینچی کا استعمال اس فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں کہ اونٹ کی کھال پر مصوری کے بہت سے شاہکار آئینہ کی صورت میں سامنے ہوتے ہیں اور ایسے اونٹوں کی قیمت بھی دیگر اونٹوں کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک اونٹ پر نقش و نگار کی مصوری کرنے کے ایک خاندانی آرٹسٹ پانچ ہزار سے دس ہزار روپے فی اونٹ وصول کرتا ہے جبکہ فیصل آباد میں جانوروں کے مقابلہ حسن کی جو نمائش ہوتی ہے اس میں بکرے کی عمر اور اسکے وزن کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس سال اس مقابلہ کا اہتمام چوہدری عطاءمحمد گجر کی سرپرستی میں فیکٹری ایریا فیصل آباد کاٹن ملز کی چمڑہ منڈی میں کیا گیا اور اس میں پورے پنجاب سے مالکان جانور اپنے اپنے بکروں، بیلوں، بچھڑوں اور گائے بھینس کے ہمراہ شریک ہوئے اورمقابلہ میں مالکان جانور کو اول، دوم اور سوم آنے پر انعامات بھی دیئے جاتے ہیں اور باقاعدہ ججوں پر مشتمل ایک بورڈ تشکیل دیا جاتا ہے جو مقابلہ حسن جانورمیں شامل جانوروں کی جانچ پرتال انہیں اصولوں اور ضابطوں کے پیش نظر کرتا ہے جیسے عالمی سطح پر مقابلہ حسن میں شامل ہونے والی خواتین کا جج انتخاب کرتے ہیں اور سینکڑوں خواتین میں سے کسی ایک خاتون کو حسینہ عالم کے اعزاز کا حق دار قرار دیتے ہیں۔ فیصل آبادمیں جانوروں کے مقابلہ حسن میں امسال سینکڑوں جانوروں کو مقابلہ حسن میں لایا گیا۔ لہٰذا مقابلہ میںگوجرانوالہ کے حاجی ذیشان علی کے بکرا کو اول انعام کا حق دار قرار دیا گیا جس کا وزن 288کلوگرام تھا اسے ایک لاکھ روپیہ انعام دیا گیا جبکہ بچھڑے کا وزن 40من 36کلو ہے اسے بھی ایک لاکھ روپیہ انعام دیا گیا۔ انعامات حاصل کرنے والے مالکان جانور میں رحیم یار خاںکے برکت مگسی، حاجی چاند، چوہدری محمد ادریس گجر، چوہدری محمد اویس، چوہدری محمدبلال، حاجی منشاءمحمود شامل ہیں جنہوں نے پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن کے انعامات حاصل کئے۔ اس مقابلہ جانور کا یہ پہلو بڑا خوش آئند اور حوصلہ افزاءہے کہ اس مقابلہ میں جس قدر بھی جانور شریک ہوئے اور ان جانوروں خصوصی طورپر بکروں میں جو زیادہ صحتمند اور خوبصورت تھے لیکن مقابلہ میں دیگر بکروںکے مقابلہ میں کوئی پوزیشن حاصل نہیں کرسکے۔ ان کے مالکان کو حوصلہ افزائی کے طور پر دس دس ہزار روپے انعام دیا گیا،مقابلہ کے اختتام پر ان جانوروں کی واک بھی کرائی گئی جسے ہزاروں افراد نے پوری دلچسپی سے نہ صرف دیکھا بلکہ یہ جانور واک کرتے ہوئے اپنے مالکان کے ہمراہ جن راستوں سے گزرے عوام نے تالیاں بجاکر ان کو داد تحسین پیش کی۔ ایسے مقابلوں کا اہتمام سرکاری سطح پر بھی ہونا چاہیے تاکہ لوگوں میں جانور پالنے کا شوق پیدا ہو۔

دھند سے پانی کا حصول

فوگ یا دھند کو کئی ملکوں میں پینے کے پانی حاصل کرنے اور دیگر مقاصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان مین بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں دھند کی موجودگی سے فائدہ اتھایا جاسکتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ مخصوص قسم کی باریک جالیاں جو کہ کم از کم ایک مربع میٹر سے لیکر کئی مربع میٹر کی ہوتی ہیں دھند کے راستے میں لگائی جاتی ہیں۔ جالیوں کے نچلے سرے پر پائیپ کو کاٹ کر اس طرح لگایا جاتا ہے کہ جالیوں سی قطرہ قطرہ پانی ان پائپوں میں گرتا ہے جو کسی برتن یا ٹینک سے جڑے ہوتے ہیں۔ پانی اس برتن یا ٹینک میں جمع ہوتا رہتا ہے

ریت کے ڈیم یا زیر زمین ڈیم بناکر پانی زخیرہ کرنا

ایسے علاقے جن کی زمین نشیب و فراز پہ مشتمل ہے وہاں اترائی کی طرف دیوار بناکر ڈیم سا بنا دیا جاتا ہے، یہ ڈیم بظاہر ریت کا ہوتا ہے تاہم ریت کے نیچے پانی ٹریپ ہوجاتا ہے۔ چونکہ یہ علاقے گرم ہوتے ہیں اور برسات کے فوراً بعد پانی بخارات میں تبدیل ہوکر اڑ جاتا ہے تاہم ریت کے ڈیم کی وجہ سے پانی ریت کی موٹی تہہ میں پھنس جاتا ہے جسے ڈیم کے ڈھلان میں کواں بناکر یا ڈیم کے بیس میں نل لگا کر نکالا جاتا ہے جوکہ ریت میں سے چھن کر آنے کی وجہ سے صاف ہوتا ہے اور تقریباً مستقلاً دستیاب ہوسکتا ہے۔ پینے کے علاوہ اضافی پانی محدود پیمانے پر سبزیاں وغیرہ کاشت کرنے کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وہ کونسے کام ہیں جو پانی کے دانشمندانہ حصول کیلئے کئے جاسکتے ہیں؟

برسات کا پانی جمع کرنے کیلئے تالاب بنانا
برسات کے پانی کو تالاب میں جمع کرنا: برسات کے پانی کو تالاب میں جمع کرنے کے بہت سے فوائد ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس پانی پر کھیت آباد کئے جاسکتے ہیں، جانوروں اور دیگر گھریلو ضروریات کیلئے پانی دستیاب ہوگا۔ انڈیا اور نیپال کے کئی علاقے جو کہ پانی کی کمی کا شکار تھے برسات کے پانی کو تالابوں میں جمع کرکے اپنی زمین آباد کر رہے ہیں اور اسطرح خوشحالی کے راستے پر گامزن ہیں۔

پانی کے حصول کے دانشمندانہ طریقے


پانی کی کمی پاکستان جیسے ملکوں کیلئے بہت بڑے مسائل

میں سے ایک ہے۔ اور اس سے جڑے دیگر مسائل جیسے پانی کا ضیاع، کھاری پن, بنجرپن اور پانی کی سپلائی کے انتظام میں خرابیاں اسے مزید بڑھاوا دینے کا سبب ہیں۔ ان حالات میں ضرورت ہے کہ پانی کو حاصل کرنے اور اس کے انتضام کیلئے غیر روایتی طریقوں سے مدد لی جائے۔ یہاں ہم نے کوشش کی ہے کہ پانی کے حصول اور انتظام کیلئے نئے طریقوں کے متعلق بتائیں جن کو اپنا کر کئی ممالک میں پینے کے پانی اور چھوٹے پیمانے کی زراعت کے مسائل حل کئے جارہے ہیں۔ مانا کہ یہ طریقے چھوٹے پیمانے کے ہیں لیکن قطرہ قطرہ دریا کے مصداق بڑی تاثیر رکھتے ہیں اور اگر دانشمندی سے کام لیا جائے تو انہیں اپنا کر حالات کو بدلا جا سکتا ہے اور پانی کی کمی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ 

مچھلیوں کیساتھ سبزیوں کی کاشت

مچھلیوں کیساتھ سبزیوں کی کاشت
مچھلی اور سبزیوں کی ایک ساتھ مربوط کاشتکاری کے انتظام کو اکواپونکس کہا جاتا ہے۔ اکواپونکس میں مچھلی کے ٹینک سے غذائی اجزا سے بھرپور پانی پودوں کو زرخیز کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پودوں کی طشتری (ٹرے) یا ٹینک میں پودوں کی جڑیں پانی سے غذائی اجزاء کو نچوڑ کر پودوں کیلئے مہیا کرتی ہیں اور فائدیمند بیکٹیریا نقصاندہ مادوں جیسے امونیا کو کھاد میں تبدیل کر کے پودوں کو خوراک اور مچھلی کو صاف شدہ پانی مہیا کرتے ہیں (اور اسطرح یہ دونوں ملکر ایک بایوفلٹر کا کام کرتے ہیں)۔ دوسرے لفظوں میں اکواپونکس میں مچھلی کے فضلہ میں موجود غذائی اجزا کو پودے اپنی خوراک کیلئے استعمال کرتے ہیں اور پانی کو صاف کرکے مچھلی کو مہیا کرتے ہیں۔ اسطرح مچھلی اور پودے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کم جگہ اور کم پانی استعمال کرکے ہمیں گھر بیٹھے صحت بخش، تازہ اور کیمیکل سے پاک (آرگینک) خوراک مہیا کرتے ہیں یعنی مچھلی بھی اور سبزیاں بھی۔ اکواپونکس میں آپ مچھلی کے ساتھ سلاد، ٹماٹر، مرچ، کھیرا، بینگن، بھینڈی، کریلہ، توری، پالک، ساگ، دھنیا کے علاوہ اور بہت سی سبزیاں اگاسکتے ہیں۔ اسکے علاوہ اسٹرابیری اور دوسرے پھل؛ پھول اور جڑی بوٹیاں بھی اگا سکتے ہیں۔
اکواپونکس کو دنیا کا سب سے زیادہ پیداواری نظام کہا جاتا ہے اور یہ ناقابل یقین حد تک پیداوار دے سکتا ہے۔ بہت سے مقامات پر اس میں سے تھوڑے سے رقبے سے کئی ہزار کلوگرام مچھلی اور سبزی کی کاشت کی جاچکی ہے۔ اکواپونکس نظام کو آپ کمرشیل چاہے گھریلو پیمانے پر بنا سکتے ہیں۔ اسے چھوٹے پیمانے پر اپنے گھر کے کسی بھی حصے میں بنا سکتے ہیں جیسے گھر کے پچھواڑے، چھت یا اگر آپ کسی فلیٹ میں رہتے ہیں تب بھی آپ یہ کام خوش اسلوبی کر سکتے ہیں اور اسکے لئے آپ اپنی کھڑکیون یا بالکونی کو استعمال کر سکتے ہیں۔

جانوروں کا دودھ بڑھائیں

مویشیوں کے دودھ میں اضافے کے لئے چند آسان چیزوں پر عمل کے ذریعے آپ اپنے
​ مویشیوں کے دودھ میں بنا کسی اضافی اخراجات کے مناسب اضافہ کر سکتے ہیں۔ آئیے سیکھیں کیسے؟ ​
صحت و صفائی
خوراک
نمک
پانی
صحتمند دودھ کیلئے ضروری ہے کہ جانور صحتمند ہو اور اسکی صحت و صفائی برقرار ہے۔ دودھ میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ مویشیوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے۔ ان کی روزانہ صفائی کیجائے خاص طور پہ ان کے تھن، ٹانگیں اور پونچھ ہر وقت صاف رکھے جائیں۔ ان کے رہنے کی جگہ مناسب اور آرامدہ ہونی چاہئے اور اسے روزانہ پابندی سے صاف کیا جانا چاہئے اور وہاں وقت بوقت چونا چھڑکنا چاہئے۔ جانوروں کی صحت برقرار رکھنے کیلئے انکی مستقل نگہداشت ضروری ہے۔ مویشیوں کو متعدی بیماریوں سے بچاؤ  کے ٹیکے پابندی سے لگوانے چاہئیں اور انہیں پیٹ کے کیڑوں کی دوا (ڈرینچ) مناسب وقت پر پلانی چاہئے۔ اگر جانور کو جوں یا چیچڑے وغیرہ لگے ہیں تو انہیں نکال دینا چاہئے یا اس کیلئے بھی دوا دینی چاہئے۔ اگر کوئی مویشی بیمار پڑجائے تو اسے باقی جانوروں سے علیحدہ کردینا چاہئے۔ مویشیوں کو شدید موسمی اثرات جیسے گرمی اور سردی سے بچانے کا مکمل بندوبست کرنا چاہئے، خاص کر گرمی کے دنوں میں انہیں ٹھنڈک مہیا کرنے کا بندوبست کرنا چاہئے، جیسے سایہ اور پانی کا چھڑکاؤ۔ انکے علاوہ دودھ دوہنے والے شخص کا صحتمند اور صاف ہونا بھی ضروری ہے۔ اسکے ہاتھ، ناخن اور کپڑے صاف ہونے چاہئیں۔ جانور کے تھنوں کو دودھ دوہنے سے پہلے اور بعد میں صاف پانی دھونا چاہئے اور دودھ دوہنے کے بعد ٹیٹ ڈپ یا اینٹی سیپٹک دوائی کا اسپرے کرنا چاہئے۔
جانوروں کی پرورش اور بہتر پیداوار کیلئے اچھی خوراک کی بڑی اہمیت ہے. جانوروں کی پیداواری صلاحیتوں کو برقرار رکھنے اور بڑھانے میں غذائی اجزاء بڑا کردار ادا کرتےہیں. جانوروں کو مختلف جسمانی ضرورتوں کیلئے نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)، لحمیات (پروٹین)، چربی (لائپڈ) وٹامن اور معدنیات (منرل) کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی مقدار عمر اور خوراک میں تبدیلی کیساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے. جانوروں کو بہتر پیداوار کیلئے متوازن خوراک کھلانی چاہئے. متوازن خوراک وہ ہے جو تمام جسمانی ضرورتیں پوری کرنے والے غذائی اجزاء پر مشتمل ہو۔ اگر جانوروں کو بہتر خوراک نہیں ملے گی تو وہ کمزوری کا شکار ہو جائیں گے اور ان کے دودھ، مکھن، گوشت اور اون کی پیداوار متاثر ہوگی اور وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائیں گا۔
خوراک میں ہری گھاس کے علاوہ گندم کی بھوسی یا سوکھی گھاس، اناج کی کوئی قسم، مولیسس، منرل مکس اور وٹامن شامل ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ سوکھے چارے کو یوریا فرٹیلائیزر کے ساتھ ملا کر بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ (اس کا طریقہ یہاں جانیں)۔  ​
نمک قدرتی طور پہ جانداروں کی خوراک میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور جسم میں دیگر اجزا کی ترسیل میں اہم ادا کرتا ہے۔ نمک کی کمی کی وجہ سے جسمانی کارکردگی کا ہر پہلو متاثر ہوتا ہے جیسے کہ جسمانی نشو و نما، افزائش نسل، صحت اور دودھ کی پیداوار۔ جسم میں نمک کی کمی کی وجہ سے جانور کھانا کم کردیتا ہے اور جو بھی خوراک کھاتا ہے وہ اچھی طرح ہضم نہیں ہوتی اور اسطرح جانور کی صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ اور اگر طویل مدت تک جسم مین نمک کی کمی رہے تو جانور کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے جیسے نروس سسٹم کمزور پڑ جانا، نتیجتاً کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ جانور بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔
نمک کی کمی کی علامات: جانور غیر غذائی اشیاء کھاتا یا چاٹتا ہے جیسے دیوار، مٹی یا لکڑی وغیرہ۔
نمک کی روزانہ ضرورت: بڑے جانوروں جیسے گائے بھینس وغیرہ کیلئے تقریباً 100 گرام اور بھیڑ یا بکری کیلئے کم از کم 10 سے 15 گرام روزانہ کھانا ضروری ہے۔
نمک کیسے کھلائیں؟ اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ پہاڑی نمک کا بڑا سا ٹکڑا ہر جانور کے چارا کھِلانے کی جگہ پہ رکھیں یا اسے کسی رسی سے باندھ کر جانور کے قریب لٹکا دیں، تاکہ
وہ بوقت ضرورت اسے چاٹ سکے۔ 
نوٹ: نمک کیساتھ پانی کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے۔
پانی ہر جاندار چاہے وہ انسان ہوں یا جانور کی زندگی کی بقا کے لئے ضروری ہے. پانی جانوروں کے جسم کی بڑھوتری، روز مرہ کے کاموں جیسے کہ ہاضمہ، جسم کا درجہ حرارت، افزئش نسل اور مجموعی صحت برقرار رکھنے کے علاوہ دودھ میں اضافے کیلئے انتہائی اہم ہے۔ پانی کی کمی جانوروں میں خشکی اور بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
گرم علاقوں میں دودھ دینے والے بڑے جانوروں جیسے گائے اور بھینس کو 24 گھنٹے میں کم از کم 100 لٹر، اور چھوٹے جانوروں کو 10 سے 15 لٹر صاف پانی پلانے کا انتظام  کرنا چاہئے۔ جانور اگر بچے کو دودھ پلانے والا ہے تو اسے مزید پانی کی ضرورت ہوگی۔ بہتر ہے کہ پانی کا اسطرح انتظام کیا جائے کہ جانور جب چاہے پانی پی سکے یعنی پانی اسکے قریب تر ہو۔ جانور اگر کھلی جگہ پر ہیں تو پانی ان سے 50 فٹ کے اندر ہونا چاہئے۔ ایک جانور کو ایک لٹر دودھ کیلئے تقریباً 5 لٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے. جانوروں کو اگر پانی کم ملے گا تو دودھ بھی کم بنے گا۔ لحاظہ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جانوروں کو 24 گھنٹے پانی کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے کہ جب اسے پیاس لگے وہ پی سکے۔

Monday, August 7, 2017

جانوروں کو ٹیکے کب لگانے چاہئیں

​​جانوروں کو ٹیکے کب لگانے چاہئیں
جانوروں کو بماریوں سے بچانے کے لیے مندرجہ بالا چارٹ کے مطابق جانوروں کو ویکسین کی جاے.اس کے لیے لازمی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت کی پابندی کریں تا کہ جانور صحت مند اور توانا رہیں.ہم اسی طرح کی فائدہ مند معلومات اپنی سایٹ پر پبلش کرتے رہیں گے

رنگین یا زیبائشی مچھلیوں کی گھروں میں افزائش

زیبائشی یا رنگین مچھلیاں اپنے خوبصرت رنگوں، عجیب و غریب بناوٹ اور عام مچھلیوں سے مختلف شکل و شباہت کی وجہ سے لوگوں کی خاص توجہ کا مرکز ہیں۔ دنیا بھر میں ان کا کاروبار بڑے پیمانے میں کیا جارہا ہے اور ان کی افزائش کرنے والے ہزاروں ڈالر کما رہے ہیں۔ ان مچھلیوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ انہیں چھوٹے سے رقبے پر اور کم وقت میں پالا جا سکتا ہے اور اس پر لاگت بھی کم آتی ہے اسطرح نسبتآٓ زیادہ منافع کمایا جاسکتا ہے۔ ان مچھلیوں کی افزائش آسان ہونے اور زیادہ منافع کی وجہ سے لوگ انکی افزائش کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مچھلیاں نازک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت منافع بخش بھی ہیں اسلئے انہیں دنیا میں بہت سے ملکوں میں گھروں میں بھی پالا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں بھی بہت سے لوگ تالابوں، گھروں اور دکانوں میں ان مچھلیوں کی افزائش کر کے آمدنی لے رہے ہیں۔ بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور اور راولپینڈی میں ان کی مارکیٹیں ہیں جہاں ان کی خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ خوبصورت مچھلیوں میں سے کچھ تو تقریبآٓ ماہانہ بچے دیتی ہیں جوکہ سیونگ بینک اکائونٹ کی طرح آپ کو مستقل آمدنی فراہم کرتی رہتی ہیں اور اسطرح ایک مستقل روزگار کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ خاص طور پر خواتین گھروں کے اندر ان کی افزائش کرکے اپنے خاندان کیلئے اضافی آمدنی حاصل کر سکتی ہیں۔

​رنگین مچھلیاں کئی اقسام کی ہوتی ہیں، کچھ بہت چھوٹے سائیز کی تو کچھ کافی بڑی، کچھ انتہائی پتلی جبکہ بہت ساری لمبائی کے مقابلے میں زیادہ موٹی جبکہ کچھ تو انتہائی عجیب و غریب شکل و صورت کی ہوتی ہیں۔ کچھ انڈے دیتی ہیں تو کچھ بچے اور کچھ اپنے انڈوں اور بچوں کو حفاظت کی خاطر منہ میں رکھتی ہیں تو کچھ انہیں کھا جاتی ہیں۔ لیکن ایک قدر مشترک ان میں یہ ہے کہ اپنے مختلف رنگوں اور شکلوں کی وجہ سے بہت ہی خوبصورت اور جاذب نظر ہوتی ہیں۔ اسلے لوگ   انہین اپنے گھروں، دکانوں اور کاروبار کی جگہوں پر شیشے کے ایکوریم میں سجاکر رکھتے ہیں۔

برساتی پانی کو اسٹور کرنے کیلئے چیک ڈیم بنائیی


What is a check dam?  چیک ڈیم کیا ہے؟
چیک ڈیم عام طور پہ ایک عارضی بند یا پشتہ ہے جو جو برساتی  پانی کے بہاؤ اور کٹاؤ کو روکنے کا کام کرتا ہے۔ اس کے ذریعے چھوٹے سیلابی بہاؤ کو بھی کم کیا جاسکتا ہے۔ چیک ڈیم عام طور پہ برساتی ندی نالوں کے راستے میں بنائے جاتے ہیں۔
What can be used to construct check dams?  چیک ڈیم کس چیز سے بن سکتے ہیں؟
چیک ڈیم پتھر، مٹی یا گارے، لکڑیوں اور سیمینٹ سے بن سکتے ہیں۔ ان کی چوڑائی ان کی اونچائی سے زیادہ ہونی چاہئے اور انکی بنیاد مضبوط بنانی چاہئے اور پانی گرنے کی  جگہ پتھر ڈالنے چاہئیں۔ چیک ڈیم کی اونچائی ایک سے دو میٹر تک ہوسکتی ہے، لیکن دو میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔
Benefits of check dams چیک ڈیم کے فائدے
اگر آپ پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں یا ایسے علاقوں میں جہاں زمین ٹیلوں کی شکل میں ہے یا وہاں نشیب و فراز ہیں تو آپ چیک ڈیم بناکر ایک تو برساتی پانی کو اسٹور کر کے درخت اور فصلیں اگانے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ چیک ڈیم کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ سیلابی پانی کے بہاؤ کو دھیما کیا جاسکتا ہے اس طرح نشیبی علاقوں میں نقصان کا اندیشہ کم ہو جاتا ہے، اور اس کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ چیک ڈیم کے اطراف زمین میں نمی آجاتی ہے اور وہاں درخت اور پودے اگ آتے ہیں۔ اور ایسی زمین فصل یا درخت اگانے کیلئے موزون بن جاتی ہے اسطرح زیر زمین پانی بھی ریچارج ہوتا ہے (جمع ہوتا ہے)

مرغیوں کی گھروں میں افزائش

مرغی اور انڈے کسے پسند نہیں؟ لیکن انہیں کھانا ہرکسی کے بس میں نہیں کیونکہ بسا اوقات خصوصاً سردیوں میں مرغی کا گوشت اور انڈے اتنے مہنگے ہوجاتے ہیں کہ انہیں کھانا کم آمدنی والے خاندانوں کیلئے ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجاتا ہے۔ مرغی اور انڈوں کا آسان حصول گھروں میں مرغیاں پالنے سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مرغیوں کی افزائش بہت ہی آسان اور ہمارے لئے اجنبی نہیں کہ چند سال پہلے تک یہ ہمارے گھروں کا حصہ تھیں۔ انڈے دینے والی مرغیوں کی افزائش اسلئے بہتر ہے کہ آپ فی مرغی تقریباً ایک انڈہ روزانہ لے سکتے ہیں۔ ان میں مصری، فیومی یا آر۔آئی۔آر نسل کی مرغیاں خاص طور پہ قابل ذکر ہیں۔ مرغیوں کی رہائش کیلئے ڈربہ بنانا بہت آسان ہے، ڈربہ لکڑی یا گتے کے کارٹن، پلاسٹک یا ٹہنیوں سے بنی ٹوکریوں یا محض جالیدار سادہ کپڑے یا پلاسٹک یا لوہے کی جالی سے کم خرچ میں تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ مرغیوں کو کچن سے بچی ہوئی چیزیں جیسے روٹیاں، سبزی، یا دوسری چیزوں کے علاوہ اناج کی مختلف اقسام مکس کرکے کھلا سکتے ہیں یا کمرشیل خوراک بھی دی جاسکتی ہے جو کہ ہر شہر میں باآسانی دستیاب ہے۔ انڈے دینے والی ایک اچھی مرغی کی قیمت تقریباً 400 سے 500 روپے ہے اور ایک مرغی سالانہ اوسطاً 300 انڈے دیتی ہے۔ اسطرح اگر آپ 10 مرغیاں پالتے ہیں تو روزانہ 8 سے 10 انڈے لے سکتے ہیں یعنی ماہانہ تقریباً  250 انڈے۔ اسطرح آپ اپنے خاندان کی خوراک کے ساتھ ساتھ اضافی انڈے بیچ کر اضافی آمدنی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

خرگوش کی افزائش


خرگوش ایک چھوٹا سا خوبصورت جانور ہے۔ اس کا گوشت نفیس اور بکرے کے گوشت سے ملتے جلتے ذائقے والا ہے۔ خرگوش کی افزائش بہت ہی آسان ہے اور اس میں مرغیوں کی طرح بیماریوں کا امکان بھی کم ہوتا ہے۔ خرگوش کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک خرگوش ایک سال میں جتنے بچے دیتا ہے ان کا مجموعی وزن ایک گائے کے برابر ہوجاتا ہے۔ اور اگر آپ فقط تین خرگوش (دو مادہ اور ایک نر) پالیں تو یہ ایک چھوٹے گھرانے کیلئے سال بھر کیلئے گوشت مھیا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ خرگوش کو پنجرے میں آسانی سے پالا جاسکتا ہے، جسے لوہے کی تاروں یا لکڑی کے تختوں سے کم خرچ میں بنایا جاسکتا ہے۔ آم اور دیگر پھلوں کے کارٹن سے بہت ہی کم خرچ مین ڈربہ بنایا جاسکتا ہے۔ ڈربہ اینٹوں سے چھوٹی دیوار چن کر بھی بنایا جاسکتا ہے۔

ایک مادہ خرگوش ایک دفعہ میں 8 سے 12 بچے دیتی ہے اور سال میں 8 سے 10 دفعہ بچے جنتی ہے۔ خرگوش کے بچے 8 سے 10 ہفتے میں تقریباً 2 سے 3 کلوگرام کے ہوجاتے ہیں۔ خرگوش کے چھوٹے بچوں کو آرام اور گرمی پنہنچانے کیلئے نرم کپڑا یا گھاس پھوس استعمال کیا جاسکتا ہے۔ خرگوش کی خوراک میں ہری گھاس اہم ہے اور تھوڑی بہت اناج کی کوئی قسم شامل کی جاسکتی ہے۔ سستی سبزیاں جیسے گاجر, شلجم، پالک، کھیرا وغیرہ بھی دئے جاسکتے ہیں۔ ایک خرگوش پر تقریباً 80 سے 100 روپئے تک خرچہ آتا ہے اور ایک خرگوش تقریباً 250 سے 300 روپے میں فروخت ہوتا ہے اسطرح آپ خرگوشوں کی افزائش پر 100 فیصد تک منافع لے سکتے ہیں اور اپنے گھر کی گوشت کی ضروریات سستے اور معیاری گوشت سے پوری کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ  اضافی آمدنی کیلئے ایک اہم ذریعہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
خرگوش اور دیگر جاندار پالتے وقت اس بات کا دھیان رکھنا بہت ضروری ہے کہ ان کی حیاتیاتی ضروریات کا خیال رکھا جائے اور انہیں بیماریوں یا ان کے شکاریوں سے بچانے کا وقت سے پہلے اہتمام کیا جائے۔ اسکے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تھوڑے پیسے سے شروعات کریں، اچھی طرح پلاننگ کریں، اور اس کی افزائش اور کاروبار کے متعلق پہلے سیکھیں اور مکمل معلومات حاصل کریں۔ اور جب تک آپ اچھی طرح سمجھ نہ جائیں تب تک کسی ماہر سے مشورہ کرتے رہیں۔ جب کچھ تجربہ حاصل ہو جائے اور مسائل پہ قابو پانا آسان لگنے لگے تو کاروبار کو بڑھاتے جائیں کامیابی اور خوشحالی آپکے قدم چومے گی۔

​گملوں میں پودے کیسے لگائیں؟

گملوں میں پودے کیسے لگائیں
  گملوں میں پودے لگانے سے پہلے ہمیں چند اہم چیزوں کو ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔

:زمین اور گملے میں فرق 
گملوں میں پودے لگانے کا عمل زمین میں پودے لگانے سے مختلف نہیں، اور نہ ہی ان کی دیکھ بھال یکسر مختلف ہے۔ لیکن چونکہ زمین میں پودے کا رابطہ اور تعلق جڑوں کے ذریعے ارد گرد کی زمین اور ماحول سے ہوتا ہے اسلئے بہت دفعہ اگر ہم سے بھول چوک ہوجائے جیسے پانی کا وقت پہ نہ دینا یا کھاد نہ ڈالنا وغیرہ تو پودے ارد گرد کی زمین سے یہ اجزا حاصل کرلیتے ہیں اور ان کی کارکردگی پہ کوئی خاص اثر نہیں پڑتا لیکن جب ہم گملوں میں پودے اگاتے ہیں تو گملے میں چونکہ وسائل اور حالات محدود ہوتے ہیں اسلئے ہمیں بہت ساری باتوں کا دھیان خود رکھنا پڑتا ہے۔ جیسے پودے لگاتے وقت گملے میں موجود مٹی کی کیمیائی ساخت و ترکیب، پانی اور کھاد کی بروقت فراہمی، پودے کو دھوپ کی مناسب فراہمی اور موسمی اثرات سے بچانے کا زیادہ اہتمام شامل ہیں۔

:مٹی کی تیاری
اکثر پودے ایسی مٹی میں زیادہ بہتر اگتے ہیں جس میں سے پانی آسانی سے اور تھوڑی دیر میں بہہ جائے اور وہ نمی بھی پکڑے رھے، تاکہ جڑوں کو پانی کے ساتھ ساتھ مناسب مقدار میں آکسیجن بھی ملتی رہے۔ ایسی مٹی عموماً مختلف اجزا ملا کر بنائی جاسکتی ہے جن میں سلٹ (رسُوبی مٹی یا بالو مٹی، وہ مٹی جو دریا یا کینال سے نکالی جائے)، ریت اور آرگینک (نباتاتی) اجزا شامل ہوں جیسے کمپوسٹ (گلی سڑی گوبر یا سبزیان اور پتے)۔ یہ تینوں اجزا تقریباً برابر ڈالنے چاہئیں۔ اگر فقط ریت اور کمپوسٹ ملائیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ ریت کی جگہ اینٹوں کا برادہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اکثر پودوں کیلئے مٹی کی کیمیائی ساخت کا ہلکا تیزابی ہونا بھی ضروری ہے۔

:پودوں کی تیاری
پودوں کو دو مرحلوں میں لگانا چاہئے۔
بیج سے پودے اگانا اور پودوں کی منتقلی (ٹرانسپلانٹیشن)۔
یہاں یہ بتانا مناسب ہے کہ کچھ پودے جیسے پودینہ، تلسی، لیمن گراس اور اسی طرح کے دیگر پودے ٹہنیاں بونے سے نہایت بہتر انداز میں اگتے ہیں۔ لہسن، مرچ، ٹماٹر، بینگن، پیاز اور دیگر کئی قسم کے پودے ٹرانسپلانٹ کرنے سے زیادہ بہتر اگتے اور پھل دیتے ہیں۔ جبکہ بھینڈی، آلو، دھنیا، پالک، کھیرا، گاجر، مولی، شلجم، تربوز، خربوز اور مٹر، اور دیگر قسم کے بین، بیج لگانے سے بہتر اگتے ہیں اور اگر انہیں ٹرانسپلانٹ کیا جائے تو ان کی کارکردگی پہ برا اثر پڑتا ہے۔ پالک، میتھی اور اس قسم کی دیگر ہری سبزیاں گملوں کے بجائے ٹرے میں لگانی چاہئیں۔ آلو  اور ادرک کی آنکھ یا کونپلیں جوکہ ثابت آلو اور ادرک پہ اگتی ہیں کاٹ کر لگائی جاتی ہیں۔ 

:بیج سے پودے اگانا
بیج کو چھوٹے برتنوں میں اگانا چاہیے جیسے پلاسٹک کے چھوٹے کپ یا گلاس، آدھے لٹر کی کٹی ہوئی پانی یا کولڈ ڈرنک کی بوتلیں یا دیگر کسی قسم کے پلاسٹک کے کپ استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ بیج کیلئے مٹی اوپر بتائے ہوئے طریقے سے تیار کرنی چاہئے۔ بیج کے گملوں کو گھر کے اندر گرم اور مرطوب جگہ جہاں چند گھنٹے دھوپ آتی ہو یا مناسب روشنی ہو رکھنا چاہئے۔ چھوٹے اور نازک پودوں کو موسمی اثرات جیسے  ٹھنڈ اور تیز دھوپ سے بچانا چاہئے۔ بیج کو بوائی کے وقت سے 3 سے 4 ہفتے پہلے لگانا چاہئے تاکہ بوائی کا موسم آنے تک آپ کے پودے ٹرانسپلانٹ کرنے کیلئے تیار ہوں۔ اکثر سبزیاں موسم بہار اور کچھ موسم سرما آنے سے پہلے بوئی جاتی ہیں لہٰذا ان کے بیج کی تیاری موسم سرما کے آخر اور خزاں کے آنے سے چند ہفتے پہلے شروع کردینی چاہئے۔

:پودوں کو کھلے ماحول کیلئے تیار کرنا
جب موسم بہتر ہونے لگے تو چھوٹے پودوں کو تھوڑی دیر کیلئے باہر رکھنا چاہئے تاکہ وہ باہر کے موسم کو برداشت کرنے کے قابل بن سکیں۔ شروع میں انہیں آدھے گھنٹے پھر ایک گھنٹے، پھر دو گھنٹے اور پھر آہستہ آہستہ زیادہ وقت کیلئے باہر رکھنا چاہئے۔ اسطرح جب آپ انہیں گملوں میں منتقل کریں گے تو وہ پہلے ہی اس ماحول کے عادی ہو چکے ہونگے۔ پودوں کو  کم از کم 5 سے 6 گھنٹے دھوپ دستیاب ہونی چاہئے۔

:(گملے میں منتقلی (ٹرانسپلانٹیشن
جب بیج سے اگائے ہوئے پودے مناسب سائیز کے ہوجائیں تو پودوں کو گملوں میں منتقل (ٹرانسپلانٹ) کرنا چاہئے۔ گملے میں پودے منتقل کرنے کے بعد انہیں خوب پانی دینا چاہئے یہاں تک کہ پانی گملے کے سوراخ سے نکلنے لگے۔ پودے گملون میں منتقل کرنے کے بعد گملوں کو ایک دو دن کیلئے نیم سائے میں رکھنا چاہئے۔ اگر آپ نے مٹی میں پہلے کھاد نہیں ڈالی تو پودے منتقل کرنے کے بعد کھاد ڈالنی چاہئے تاکہ پودے کو مناسب مقدار میں خورا ک مہیا ہو۔

:گملوں کا سائیز
گملے چھوٹے یا بڑے ہوسکتے ہیں اور اس کا زیادہ دارومدار پودوں کی قسم پر ہے۔ لیکن عمومی سائیز 2 سے 5 گیلن مناسب ہوتی ہے۔ اگر پھلدار سبزیاں جیسے ٹماٹر، مرچ، بھینڈی، کھیرا بینگن، گوبھی اور آلو  وغیرہ لگانے ہیں تو کم از کم 5 گیلن (ایک عام بالٹی کے سائیز) کا گملا منتخب کرنا چاہئے۔ گملے کے پیندے میں مناسب سوراخ کرنا چاہئے تاکہ اضافی پانی آسانی سے خارج ہوجائے۔ پانچ گیلن کی بالٹی میں ایک سے دو مربع انچ کا سوراخ کرنا چاہئے۔ گملے میں مٹی بھرنے سے پہلے سوراخ کے اوپر گھاس پھوس یا ایسی رکاوٹ ڈالنی چاہئے تاکہ مٹی نہ نکل سکے تاہم پانی آسانی سے نکل جائے۔

:کھاد کا استعمال
گملوں میں پودوں کی صحت اور پیداواری صلاحیت بڑھانے اور برقرار رکھنے کیلئے کھاد کا استعمال بہت ضروری ہے۔  گملوں میں پودوں کو آرگینک یا مصنوئی دونوں قسم کی کھاد دی جاسکتی ہے۔ تاہم مصنوعی یا زرعی کھاد کے نتائج فوری آنے لگتے ہیں جبکہ آرگینک کھاد جیسے گوبر یا کمپوسٹ ذرا آہستہ رنگ دکھاتی ہے، لیکن آرگینک کھاد کی خوبی یہ ہے کہ اس کے ذریعے پودے کو ہمہ قسم کی کھاد میسر ہوتی ہے جس میں دونوں میکرو اور مائکرو اقسام کے نیوٹریئینٹ (غذائی اجزا) دستیاب ہوتے ہیں۔ مصنوعی کھاد میں میکرو نیوٹریئینٹ جیسے نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاشیم زیادہ مقدار میں شامل ہوتے ہیں جبکہ چند مائرو نیوٹریئینٹ بھی شامل ہوتے ہیں۔ شروع میں پودے کو ایسی کھاد ڈالنی چاہئے جس میں زیادہ نائٹروجن شامل ہو جیسے یوریا یا امونیم سلفیٹ جب پودوں میں پھل لگنے لگیں تو انہیں زیادہ فاسفورس اور زیادہ پوٹاشیم اور کم نائٹروجن والی کھاد ڈالنی چاہئے۔ گملوں میں ٹماٹر عموماً اینڈ راٹ غذائی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں جس میں ٹماٹر کا نیچے والا حصہ کالا یا سرمئی ہوجا تا ہے اور اس کی شکل کسی زخم کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ اس پر قابو پانے کیلئے کیلشیم استعمال کرنا چاہئے۔ کیلشیم کیلئے انڈے کے چھلکے بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں تاہم ان کا زیادہ استعمال پی ایچ کو بڑھا سکتا ہے۔

:بروقت ہارویسٹ
پودوں پہ پھل پکنے کے بعد انہیں جلد از جلد کاٹنا چاہئیے تاکہ ان پر دوسرے پھل اگ سکیں۔

:پودوں کی صحت کی دیکھ بھال
​پودوں کی دیکھ بھال گھریلو باغبانی کے لئے بہت اہم ہے۔ اور اسکا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ روزانہ پانی دیتے وقت پودوں کا بغور معائنہ کرنا چاہئے۔ اسطرح آپ بیماریوں کا بروقت ممکنہ تدارک کرسکتے ہیں۔ اگر بیماری کے کوئی آثار نظر آئیں تو ان کا فوری علاج کیا جانا چاہئیے۔ پودوں کو عموماً سب سے زیادہ خطرہ رینگنے والے کیڑوں اور مختلف قسم کی مکھیوں سے ہوتا ہے لہٰذا انہیں بروقت بھگانا چاہئے یا پکڑ کر تلف کردیں۔ بیماری کی صورت میں گھریلو نسخے جیسے نیم کا عرق، مرچوں اور لہسن کا اسپرے وغیرہ کا استعمال کیا ۔ جاسکتا ہے۔ اگر حشرات کا سامنا ہو تو انہیں پانی کے تیز اسپرے سے بھگانا چاہئے۔ رینگنے والے کیڑوں کو ہاتھ سے پکڑ کر تلف کردینا چاہئے۔

کچن گارڈن کیا ہے؟


کچن گارڈن سے مراد گھر میں سبزیاں اگانا ہے۔ کچن گارڈن آپ اپنے گھر کے کسی بھی حصے میں اگا سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی فلیٹ میں رہتے ہیں تب بھی آپ یہ کام خوش اسلوبی کر سکتے ہیں اور اسکے لئے آپ اپنی کھڑکیون یا بالکونی کو استعمال کرکے ورٹیکل گارڈن سے اپنے گھر کی سبزی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ کچن گارڈن کیلئے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں، انہیں آپ کیاریوں میں اگاسکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں تھوڑی سی کچی زمین ہے تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے ورنہ آپ کیاریوں سے بھی اچھا منافع کما سکتے ہیں۔ اسکیلئے آپ کوئی سے پرانے برتنوں جیسے پرانی بالٹی، ٹوٹا ہوا مٹکا، پرانے ٹائر، ٹیوب یا پائیپ کے ٹکڑے یا کوئی بھی ایسا برتن جس میں تھوڑی سی مٹی اور پانی جمع کیا جاسکے استعمال کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ لکڑی کے تختوں سے بنے پھلوں کے کارٹن یا موٹے کپڑے سے بنے تھیلے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ پانی یا کوکنگ آئل وغیرہ کے کین یا کولڈ ڈرنک کی دو لیٹر یا اس سے بڑی بوتلیں کچن گارڈن کیلئےبڑی افادیت رکھتی ہیں۔ ان بوتلوں سے ورٹیکل گارڈن جو شہری گھروں کیلئے بہت کارآمد ہیں،  بڑی عمدگی سے بنائے جاسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ آپ اپنے گھر یا فلیٹ کے فرش کو بھی برؤئیکار لاسکتے ہیں، اسکے لئے فرش پر موٹے پولی تھین کی دہری تہہ لگانی چاہئے تاکہ سیپیج سے فرش خراب نہ ہو۔

کچن گارڈن میں کیا اگایا جاسکتا ہے؟
کچن گارڈن میں آپ ٹماٹر، مرچ، کھیرا، بینگن، بھینڈی، کریلہ، توری، پیاز، پالک، دھنیا اور لہسن کے علاوہ اور بہت سی سبزیاں اگاسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آلو اور شلجم یا گاجر تک اگائے جاسکتے ہیں۔ آجکل ایسے بیج بازار میں دستیاب ہیں جو زیادہ اور جلدی پھل دیتے ہیں اور بیماریوں سے بھی کم متاثر ہوتے ہیں۔ بیج کے علاوہ کسی اچھی نرسری سے ان سبزیوں کے پودے بھی لئے جاسکتے ہیں جو جلد پھل دیتے ہوں۔ سبزیوں کو اگانے اور ان کی دیکھ بھال کے طریقے آن لائن دیکھے جاسکتے ہین اور کئی سرکاری ادارے اور غیرسرکاری تنظیمیں اس کام میں آپ کی معاونت کرسکتی ہیں۔

!اسکول میں کچن گارڈن یا بیک یارڈ گارڈن کو فروغ دیجئے
اسکول میں بچوں کو سبزیون کے پودے لگانے کیلئے تعلیم اور ترغیب دیجئے اور اسکول کے آگے پیچھے زمین اور کیاریوں میں ان سے پودے لگوائیں اسطرح کچن گارڈن کو  بہت آسانی سے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اسطرح بچوں میں سبزیوں اور پھلوں سے رغبت بڑھے گی اور اور اپنے والدین اور رشتہ داروں میں اس شوق کو پروان چڑھانے میں مددگار بنیں گے اور کچن یا بیک یارڈ گارڈن ترقی یافتہ ملکوں کیطرح تقریباً ہر گھر کا حصہ بن جائے گا۔ اور اسطرح غریب گھرانوں کی سبزی ترکاری کی ضروریات کم خرچ میں پوری ہوسکیں اور ان میں غزائی کمی پہ بھی قابو پایا جاسکے۔   

Sunday, August 6, 2017

فش فارمنگ

​​​
مچھلیوں کی افزائش دنیا بھر میں کاروبار کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ تالابوں، جھیلوں اور سمندر کے علاوہ بہت سے مرد و خواتین انہیں گھروں کے اندر پال کر بھی اپنے اور اپنے خاندان کیلئے اضافی آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔ مچھلیوں کی افزائش کے متعلق کبھی سمجھا جاتا تھا کہ اسے کرنے کیلئے بہت سرمائے اور اچھے خاصے رقبے کی ضرورت ہوگی، مگر بدلتے وقت کیساتھ سائنسی تحقیق اور معلومات میں اضافہ کیوجہ سے ایسے طریقے دریافت ہورہے ہیں جنہیں اپنا کر بہت کم سرمائے اور چھوٹی سی جگہ میں اسے شروع کیا جاسکتا ہے۔

چھوٹے پیمانے پر مچھلیوں کی افزائش ایک نہایت فائدہ مند کاروبار ہے اور اسکے ذریعے آپ اضافی آمدنی کے ساتھ اپنے خاندان کیلئے عمدہ گوشت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ چھوٹے پیمانے پر یوں تو آپ کسی بھی قسم کی مچھلی پال سکتے ہیں تاہم انتہائی محدود پیمانے پر جیسے کہ گھروں کے اندر پالنے کیلئے کیٹ فش اور رنگین مچھلیاں انتہائی مناسب ہیں۔ مچھلیوں کو گھر کے کسی بھی حصے میں باآسانی پالا جاسکتا ہے۔ انہیں پانی کے ڈرم یا بڑے ٹب کے علاوہ پلاسٹک کے پانی یا کوکنگ آئل کے بڑے کین؛ کسی بھی قسم کے پرانے برتن جیسے بڑی دیگچی، بالٹی یا مٹی کے گھڑے وغیرہ؛ پرانے ٹائر اور ٹیوب سے بنے ٹب؛ یا کسی دیگر قسم کے برتن جن میں پانی کھڑا ہوسکے میں پالی جاسکتی ہیں۔ تاہم چھوٹے چھوٹے کچے یا سیمنٹ کے ٹینک تعمیر کرکے مچھلی پالنا سب سے بھترین طریقہ ہے۔
کیٹ فش میں سے میٹھے پانی کی سول (چٹو) مچھلی یا سنگھاڑا؛ اور رنگین مچھلیوں میں سے مولی، گپی، پلیٹی یا سورڈٹیل بہت آسانی سے گھروں میں یا محدود جگہ میں پالی جاسکتی ہیں۔ رنگین مچھلیاں ایک سے دو مہینے کے اندر بچے دیتی ہیں اسطرح ان سے ہر مہینے آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے۔ جبکہ سول اور دیگر کیٹ فش کچھ مہینے میں بڑی ہوجاتی ہے اور مارکیٹ کی جاسکتی ہے یا ان سے اپنے گھر کی مچھلی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ مچھلیوں کیلئے خوراک آسانی سے بنائی جاسکتی ہے اور بنی بنائی بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ مچھلیون کیلیئے صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ پانی میں آکسیجن کی مناسب مقدار کا ہونا ضروری ہے۔ آکسیجن کی سپلائی کیلئے چھوٹے سے ایئر پمپ کا استعمال کیا جاتا ہے جو مارکیٹ میں چند سو روپوں میں باآسانی دستیاب ہے۔

رنگین پرندوں کی افزائش


رنگین پرندوں کی افزائش اور کاروبار دنیا بھر میں کیا جاتا ہے اور بہت سارے لوگ انہیں گھروں میں پال رہے ہیں۔ خوبصورت پرندوں کی افزائش گھر کے آنگن، چھت یا بالکونی کے مختصر سے حصے میں کی جاسکتی ہے، اسکے لئے آپ کم خرچ میں لکڑی کے ٹکڑوں اور لوہے یا پلاسٹک کی جالی کو جوڑ کر پنجرے بنا سکتے ہیں۔ یا مٹی سے بنے برتنوں جیسے مٹکی وغیرہ کو بھی استعمال میں لاسکتے ہیں۔ انکے علاوہ ٹوٹے برتنوں جیسے بالٹی، گھی یا پانی کی بوتلوں یا کین وغیرہ کو سوراخ کرکے پرندوں کے رہنے کی جگہ بنا سکتے ہیں۔ اسکے علاوہ گتے یا لکڑی کے کارٹن یا پلاسٹک اور ٹہنیوں سے بنی ٹوکریاں بھی اس مقصد کیلئے استعمال کی جاسکتی ہیں۔ مختلف قسم کے طوطے جیسے بجریگر اور کوکٹیل طوطے، چڑیائیں جیسے فنچ، جاوا، یا کنیری؛ کبوتر، لو برڈس، کوکیٹو اور بٹیر بہت آسانی سے گھروں میں پالے جاسکتے ہیں۔ یہ پرندے تھوڑے وقت میں بچے پیدا کرتے ہیں جو کہ اچھی خاصی قیمت پہ فروخت ہوتے ہیں۔ پرندوں کیلئے خوراک اناج کے مختلف قسموں کو ملاکر بنائی جاسکتی ہے اور بنی بنائی بھی مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہے۔

​بچھڑوں کی دیکھ بھال

بچھڑوں کی دیکھ بھال
بچھڑے فارم کی کامیابی کیلئے بہت اہم ہیں کیونکہ یہ فارم کیلئے مستقبل کے دودھ یا گوشت کی پیداوار کیلئے پرانے جانوروں کا بہترین نعمل بدل ہیں۔ اور مالکان کیلئے مستقبل کی جائیداد ہیں. بچھڑوں کی مناسب دیکھ بھال سے آپ بڑا مالی فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
الف۔ نئے پیدا شدہ بچھڑے کا ناڑہ تقریباً 3 انچ ماں کے جسم سے ہٹ کے باندھنا چاہئے اور پھر کر کسی تیز آلے (جیسے بلیڈ وغیرہ) سے کاٹنا چاہئے۔ کاٹنے کے بعد اسے ٹینکچر آیوڈین لگانا چاہئے تاکہ زخم نہ بنے. اگر آیوڈین دستیاب نہیں تو ڈیٹول یا کوئی سا اینٹی سیپٹک محلول استعمال کریں۔
ب۔ بچھڑے کی ماں کو اسے چاٹنے دیں اگر یہ ممکن نہ ہو تو بچھڑے کو صاف اور نرم کپڑے سے احتیاط سے صاف کریں۔ خاص طور پر اسکی ناک، کان، اور آنکھوں کو اچھے طور پر صاف کرنا چاہئے۔ بچھڑے کو گرم اور صاف جگہ دیگر جانوروں سے علیحدہ رکھنا چاہئے۔
ج۔ بچھڑے کی صحت کیلئے ضروری ہے کہ اسے تین دن تک ماں کا گاڑہ دودھ “لبا” (کولسٹرم) پلانا چاہئے، اگر شروع میں بچھڑے کو ماں کے تھنوں سے دودھ پینے میں دقت ہو تو اس کی مدد کریں۔ یاد رکھیں بچھڑے کی پیدائش کے ۵ گھنٹے کے اندر اندر اسے لبا پلائیں، یہ بچھڑے کی صحت کیلئے اہم ہے۔ پیدائش کے ۲۴ گھنٹے میں بچھڑے کو کم از کم تین چار بار ماں کا دودھ پلائیں اور وہ جتنا پینا چاہے اسے پینے دیں۔
ح۔بچھڑوں کو 15 دن تک انکے وزن کے تقریباً 10 فیصد کے برابر ماں کا دودھ پلانا چاہئے. دودھ پلانے کیلئے فیڈر بوتل یا بالٹی استعمال کی جاسکتی ہے۔ برتن کو اچھی طرح سے دھونا چاہئے، گندے برتن کے استعمال سے بچھڑے بیمار پڑ سکتے ہیں۔ اسکا دوسرا مروج طریقہ یہ ہے کہ دودھ دوہنے کے بعد بچھڑے کو ماں سے دودھ پینے دیا جائے۔
ز۔ پندرھ دن سے ایک مہینے تک انہیں انکے وزن کے 15 فیصد وزن کے برابر ماں کا دودھ پلانا چاہئے اور انہیں سبز گھاس اور دانہ دینا شروع کردینا چاہئے۔ گھاس کو زمین پر رکھنے کے بجائے کسی برتن میں ڈالیں یا گٹھے بناکر  کسی کھَمبے سے باندھ دیں۔
ط۔ سبز گھاس کیساتھ خشک گھاس، بھوسہ اور دانہ دار خوراک بڑھاتے رہنا چاہئے اور دودھ کی مقدار آہستہ آہستہ گھٹائی جانی چاہئے۔ ساتھ ساتھ خوراک میں تھوڑی مقدار میں ضروری اجزا جیسے وٹامن۔منرل پریمکس شامل کرنا چاہئے اور پانی کی 24 گھنٹے فراہمی یقینی بنانی چاہئے۔ بچھڑے ایک سے دو ہفتے کی عمر سے پانی پینا شروع کردیتے ہیں۔ پہاڑی نمک (لاھوری نمک) بھی بچھڑے کو دن میں دو تین مرتبہ تھوڑا تھوڑا چٹانا چاہئے۔
ظ۔ تقریباً ۸ سے ۱۰ ہفتے میں انہیں گھاس اور دیگر خوراک کا عادی بنایا جائے اور دودھ اس کے بعد دودھ دینا بند کرنا چاہئے۔
ع۔ بچھڑوں کو پیٹ کے کیڑے ختم کرنے کیلئے ادویات ہر چھ مہینے بعد پلانا ضروری ہے اور سال کے مقرر اوقات میں ویکسین کے ٹیکے بھی بالضرور لگوانے چاہئے۔
و۔ بچھڑوں کو گرمی اور سردی سے بچانے کا مناسب بندوبست کرنا چاہئے۔
ھ۔ بہتر خوراک اور مناسب دیکھ بھال سے بچھڑے صحتمند رہیں گے اور جلدی جوان ہونگے۔

مویشیوں کے دودھ میں اضافے کا آسان طریقہ

مویشیوں کے دودھ میں اضافے کا آسان طریقہ ​
مویشیوں کے دودھ میں اضافے کے لئے چند آسان چیزوں پر عمل کے ذریعے آپ اپنے
​ مویشیوں کے دودھ میں بنا کسی اضافی اخراجات کے مناسب اضافہ کر سکتے ہیں۔ آئیے سیکھیں کیسے؟ ​
صحت و صفائی
خوراک
نمک
پانی
صحتمند دودھ کیلئے ضروری ہے کہ جانور صحتمند ہو اور اسکی صحت و صفائی برقرار ہے۔ دودھ میں اضافے کیلئے ضروری ہے کہ مویشیوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے۔ ان کی روزانہ صفائی کیجائے خاص طور پہ ان کے تھن، ٹانگیں اور پونچھ ہر وقت صاف رکھے جائیں۔ ان کے رہنے کی جگہ مناسب اور آرامدہ ہونی چاہئے اور اسے روزانہ پابندی سے صاف کیا جانا چاہئے اور وہاں وقت بوقت چونا چھڑکنا چاہئے۔ جانوروں کی صحت برقرار رکھنے کیلئے انکی مستقل نگہداشت ضروری ہے۔ مویشیوں کو متعدی بیماریوں سے بچاؤ  کے ٹیکے پابندی سے لگوانے چاہئیں اور انہیں پیٹ کے کیڑوں کی دوا (ڈرینچ) مناسب وقت پر پلانی چاہئے۔ اگر جانور کو جوں یا چیچڑے وغیرہ لگے ہیں تو انہیں نکال دینا چاہئے یا اس کیلئے بھی دوا دینی چاہئے۔ اگر کوئی مویشی بیمار پڑجائے تو اسے باقی جانوروں سے علیحدہ کردینا چاہئے۔ مویشیوں کو شدید موسمی اثرات جیسے گرمی اور سردی سے بچانے کا مکمل بندوبست کرنا چاہئے، خاص کر گرمی کے دنوں میں انہیں ٹھنڈک مہیا کرنے کا بندوبست کرنا چاہئے، جیسے سایہ اور پانی کا چھڑکاؤ۔ انکے علاوہ دودھ دوہنے والے شخص کا صحتمند اور صاف ہونا بھی ضروری ہے۔ اسکے ہاتھ، ناخن اور کپڑے صاف ہونے چاہئیں۔ جانور کے تھنوں کو دودھ دوہنے سے پہلے اور بعد میں صاف پانی دھونا چاہئے اور دودھ دوہنے کے بعد ٹیٹ ڈپ یا اینٹی سیپٹک دوائی کا اسپرے کرنا چاہئے۔
جانوروں کی پرورش اور بہتر پیداوار کیلئے اچھی خوراک کی بڑی اہمیت ہے. جانوروں کی پیداواری صلاحیتوں کو برقرار رکھنے اور بڑھانے میں غذائی اجزاء بڑا کردار ادا کرتےہیں. جانوروں کو مختلف جسمانی ضرورتوں کیلئے نشاستہ (کاربوہائیڈریٹ)، لحمیات (پروٹین)، چربی (لائپڈ) وٹامن اور معدنیات (منرل) کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی مقدار عمر اور خوراک میں تبدیلی کیساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے. جانوروں کو بہتر پیداوار کیلئے متوازن خوراک کھلانی چاہئے. متوازن خوراک وہ ہے جو تمام جسمانی ضرورتیں پوری کرنے والے غذائی اجزاء پر مشتمل ہو۔ اگر جانوروں کو بہتر خوراک نہیں ملے گی تو وہ کمزوری کا شکار ہو جائیں گے اور ان کے دودھ، مکھن، گوشت اور اون کی پیداوار متاثر ہوگی اور وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائیں گا۔
خوراک میں ہری گھاس کے علاوہ گندم کی بھوسی یا سوکھی گھاس، اناج کی کوئی قسم، مولیسس، منرل مکس اور وٹامن شامل ہونی چاہئیں۔ اس کے علاوہ سوکھے چارے کو یوریا فرٹیلائیزر کے ساتھ ملا کر بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ (اس کا طریقہ یہاں جانیں)۔  ​
نمک قدرتی طور پہ جانداروں کی خوراک میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور جسم میں دیگر اجزا کی ترسیل میں اہم ادا کرتا ہے۔ نمک کی کمی کی وجہ سے جسمانی کارکردگی کا ہر پہلو متاثر ہوتا ہے جیسے کہ جسمانی نشو و نما، افزائش نسل، صحت اور دودھ کی پیداوار۔ جسم میں نمک کی کمی کی وجہ سے جانور کھانا کم کردیتا ہے اور جو بھی خوراک کھاتا ہے وہ اچھی طرح ہضم نہیں ہوتی اور اسطرح جانور کی صحت متاثر ہونے لگتی ہے۔ اور اگر طویل مدت تک جسم مین نمک کی کمی رہے تو جانور کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے جیسے نروس سسٹم کمزور پڑ جانا، نتیجتاً کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ جانور بیماریوں کا شکار ہو سکتا ہے۔
نمک کی کمی کی علامات: جانور غیر غذائی اشیاء کھاتا یا چاٹتا ہے جیسے دیوار، مٹی یا لکڑی وغیرہ۔
نمک کی روزانہ ضرورت: بڑے جانوروں جیسے گائے بھینس وغیرہ کیلئے تقریباً 100 گرام اور بھیڑ یا بکری کیلئے کم از کم 10 سے 15 گرام روزانہ کھانا ضروری ہے۔
نمک کیسے کھلائیں؟ اسکا آسان طریقہ یہ ہے کہ پہاڑی نمک کا بڑا سا ٹکڑا ہر جانور کے چارا کھِلانے کی جگہ پہ رکھیں یا اسے کسی رسی سے باندھ کر جانور کے قریب لٹکا دیں، تاکہ
وہ بوقت ضرورت اسے چاٹ سکے۔ 
نوٹ: نمک کیساتھ پانی کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے۔
پانی ہر جاندار چاہے وہ انسان ہوں یا جانور کی زندگی کی بقا کے لئے ضروری ہے. پانی جانوروں کے جسم کی بڑھوتری، روز مرہ کے کاموں جیسے کہ ہاضمہ، جسم کا درجہ حرارت، افزئش نسل اور مجموعی صحت برقرار رکھنے کے علاوہ دودھ میں اضافے کیلئے انتہائی اہم ہے۔ پانی کی کمی جانوروں میں خشکی اور بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
گرم علاقوں میں دودھ دینے والے بڑے جانوروں جیسے گائے اور بھینس کو 24 گھنٹے میں کم از کم 100 لٹر، اور چھوٹے جانوروں کو 10 سے 15 لٹر صاف پانی پلانے کا انتظام  کرنا چاہئے۔ جانور اگر بچے کو دودھ پلانے والا ہے تو اسے مزید پانی کی ضرورت ہوگی۔ بہتر ہے کہ پانی کا اسطرح انتظام کیا جائے کہ جانور جب چاہے پانی پی سکے یعنی پانی اسکے قریب تر ہو۔ جانور اگر کھلی جگہ پر ہیں تو پانی ان سے 50 فٹ کے اندر ہونا چاہئے۔ ایک جانور کو ایک لٹر دودھ کیلئے تقریباً 5 لٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے. جانوروں کو اگر پانی کم ملے گا تو دودھ بھی کم بنے گا۔ لحاظہ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جانوروں کو 24 گھنٹے پانی کی فراہمی یقینی بنانی چاہئے کہ جب اسے پیاس لگے وہ پی سکے۔

Saturday, August 5, 2017

Can we use a drug after the expiry date?

The expiration date of a drug is estimated using stability testing under good manufacturing practices as determined by the Food and Drug Administration (FDA). Drug products marketed in the US typically have an expiration that extends from 12 to 60 months from the time of manufacturer. Once the original container is opened, either by the patient or the health care provider who will dispense the drug, that original expiration date on the container can no longer be relied upon. However, the actual shelf life of the drug may be much longer, as stability studies have shown.

https://www.ytmonster.net/register?ref=aadil143s